بین الاقوامی

پی ٹی آئی کے مطالبات کا جواب دینے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے: عرفان صدیقی

اسلام آباد،20؍جنوری(ایجنسی)پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیٹر اور مذاکراتی کمیٹی میں حکومت کے نمائندے عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو مطالبات کا جواب دینے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔پیر کو اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ایک پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے جواب میں اپنا موقف تیار کر لیا ہے۔‘’یہ خبر اور اس میں بیان کی گئی تمام تفصیلات بے بنیاد ہیں۔ اس وقت حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں باہمی مشاورت اور اپنی اپنی قیادت سے رہنمائی حاصل کرنے کے عمل میں ہیں۔ حتمی جواب تیار کرنے میں ایک ہفتہ مزید لگ سکتا ہے۔‘وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز نے کہا ہے کہ وہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بچوں کو سکالر شپ دینا چاہتی ہیں۔پیر کو ڈی جی خان میں ہونہار سکالر شپ کی تقریب میں سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ بچوں کو جلد لیپ ٹاپ اور ایک لاکھ ای بائیکس فراہم کریں گے۔ اس سال 30 ہزار سکالر شپس دی ہیں اور اگلے سال 50 ہزار تک سکالر شپس دے رہے ہیںانہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا کے بچوں کی طرف سے بھی درخواستیں آ رہی ہیں کہ ہمیں بھی سکالر شپس دی جائیں۔ چاہتی ہوں کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے بچوں کو سکالر شپ دوں۔‘وزیراعلٰی پنجاب نے غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان میں انکوبیشن سینٹر قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔چیرمین سینٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان میچ نہیں مذاکرات چل رہے ہیں۔پیر کو اسلام آباد میں میڈیا کرکٹ لیگ کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’سپیکر قومی اسمبلی نے حکومت اور تحریک انصاف کو پلیٹ فارم دیا ہے۔ مذاکرات واحد حل ہے، تیسری آپشن اور کوئی بھی نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈر کل دوبارہ جاری کیے ہیں اور آئی جی کو بھی ہدایت کی ہے۔چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ عرفان صدیقی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان ہیں۔ ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذاکرات کو تعطل کا شکار کریں۔پیر کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری جو (آرمی چیف سے) ملاقات ہوئی اس میں لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر بات ہوئی ہے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر ملاقات پر ایشو کھڑا نہیں کرنا چاہیے۔‘’ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری شرط ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ عمران خان نے کہا ہے سات دن میں کمیشن نہ بنا تو چوتھی میٹنگ نہیں ہو گی۔‘انہوں نے کہا کہ ’ہم حکومت کا انتظار کر رہے ہیں وہ کیا پیش رفت بتاتے ہیں۔ اگر کمیشن نہیں بننے جا رہا تو مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘’حکومت کو گھبراہٹ ہے کیونکہ یہ فارم 47 کی حکومت ہے۔ حکومت کو مذاکرات پر توجہ دینی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں مذاکرات کی کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے۔‘بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ ’میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ تحمل اور برداشت کے ساتھ مذاکرات پر فوکس کرنا چاہیے۔ بات آگے بڑھانے کے لیے جلد بازی کے بجائے تحمل سے کام لینا ہو گا۔
‘سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ریگولر بینچز کے اختیارات سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس کو طلب کیا اور وضاحت طلب کی ۔
کہ کیس آج سماعت کے لیے کیوں مقرر نہیں ہوا؟پیر کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کے روبرو بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ کراچی سے آئے ہیں، تاہم آج کیس سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔مختصر وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈپٹی رجسٹرار زوالفقار علی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ججز کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ’کیس کو 27 جنوری کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ججز کمیٹی کے رکن ہیں، مگر انہیں اجلاس کے انعقاد کا علم ہی نہیں تھا۔‘جسٹس عائشہ ملک نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کے سامنے پورے ہفتے کے کیسز سماعت کے لیے مقرر تھے، مگر وہ اچانک تبدیل ہوگئے۔ عدالت نے ججز کمیٹی کے اجلاس کے منٹس اور مقدمات میں کی گئی تبدیلیوں کی تفصیلات طلب کرلیں۔بعد ازاں عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ذاتی حیثیت میں وضاحت کے لیے طلب کر لیا۔عدالت نے حکم دیا کہ کیس کی سماعت 20 جنوری کو صبح ساڑھے 9 بجے ہو گی۔ سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 16 جنوری کے عدالتی حکم کے باوجود مقدمے کی سماعت کی تاریخ تبدیل کرنا خلاف قانون ہے، اور یہ بھی سوال اٹھایا کہ ججز کمیٹی کے فیصلے کی کوئی تحریری دستاویز اب تک عدالت کو کیوں فراہم نہیں کی گئی۔دورانِ سماعت جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا اب عدالت کے کیسز کا فیصلہ ایک ریسرچ آفیسر کرے گا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر جسٹس عرفان سعادت مصروف ہیں تو کوئی اور جج بینچ میں شامل ہو سکتا تھا، ججز کمیٹی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کیسز کو بغیر سماعت کے ملتوی کرے۔‘بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو یاد دلایا کہ صحافیوں سے متعلق ایک کیس میں ازخود نوٹس کے بعد فیصلہ دیا گیا تھا کہ اگر کوئی بینچ معاملہ چیف جسٹس کو بھیجتا ہے تو وہی فیصلہ کریں گے۔ اس پر جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ انہیں سمجھ نہیں آتی کہ دو یا تین ججز کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر فیصلہ کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقدمہ ان کی عدالت کے علاوہ کسی اور عدالت میں بھی مقرر نہیں کیا گیا بلکہ اسے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر ججز کمیٹی چاہتی تو بینچ کو دوبارہ تشکیل دیا جا سکتا تھا۔عدالت نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کو ہدایت دی کہ کیس سے متعلق تمام دستاویزات عدالت میں پیش کی جائیں اور آئندہ سماعت میں ججز کمیٹی کے اجلاس کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔

 

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button